پاکستان نیوی ایئرکرافٹ کیئریر کیوں نہیں بناتی جبکہ بھارتی نیوی ایئرکرافٹ کیئریر سے لیس ہے، جی ہاں یہ سوال بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں گھومتا ہے، کیونکہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں ہر طرح کا ہتھیار بنا رہا ہے یا دوسرے ممالک سے خریدتا ہے۔
مگر پاکستان کی ایئرکرافٹ کیریئر میں دلچسپی نظر نہیں آرہی، کیا اس کی وجہ پاکستان کا کم دفاعی بجٹ ہے؟ یا کچھ اور؟ کیوں کہ بھارت اپنی نیوی کو ایئرکرافٹ کیریئرز سے لیس کر رہا ہے،جن پر بھارتی نیوی کے کئی لڑاکا طیارے موجود ہوں گے۔
اصل میں پاکستان کی ایئرکرافٹ کیریئر کی ٹیکنالوجی حاصل نہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں، اس سے پہلے کہ میں آپ کو وہ وجوہات بتاؤں ، میں پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایئرکرافٹ کیئریرز کیوں استعمال کیے جاتے ہیں۔
ائیر کرافٹ کیریئر پر کئی درجن لڑاکا طیارے موجود ہوتے ہیں، اور جنگ یا پھر کسی آپریشن کی صورت میں یہ لڑاکا طیارے ائیر کرافٹ کیریئر سے مشن کو سرانجام دینے کے لیے اڑان بھرتے ہیں، اور مشن مکمل ہونے کے بعد یہ لڑاکا طیارے واپس ایئرکرافٹ کیریئر پر اترتے ہیں۔
ائیرکرافٹ کیرئیر کو سمندر کے ذریعے اس علاقے یا ملک کے قریب لایا جاتا ہے جہاں ائیر اٹیک یا پھر آپریشن سرانجام دینا ہو،ایسا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ائیربیس دور ہونے کی وجہ سے لڑاکا طیاروں کو ہدف تک پہنچنے میں زیادہ سفر نہ کرنا پڑے، اور آپریشن کو زیادہ یا درکار وقت دیا جاسکے۔
اب آتے ہیں ان وجوہات کی طرف کہ پاکستان ائیرکرافٹ کیریئر کی ٹیکنالوجی کیوں نہیں حاصل کرتا، سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا فطری دشمن بھارت کو سمجھا جاتا ہے، اور دونوں ممالک کی ایئر بیسز سے اڑنے والے جنگی طیارے چند منٹ میں دشمن ملک میں داخل ہو سکتے ہیں، یعنی لڑاکا طیاروں کو متعلقہ علاقے تک پہنچنے میں زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا۔
پاکستان اور بھارت کے بارڈر کی لمبائی تقریباً 2912 کلومیٹر ہے، اور باڈر کا علاقہ زیادہ تر میدانی ہے، لہذا پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لیے کسی ایئرکرافٹ کیریئر کی ضرورت ہی نہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت پھر ایئرکرافٹ کیریئر کیوں بنا رہا ہے، اصل میں بھارت کے ایئرکرافٹ کیریئرز بنانے کی وجہ چین ہے۔
آپ سب یہ جانتے ہیں کہ چین اور بھارت بھی ایک دوسرے کے اسی طرح دشمن ہیں جس طرح بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ مگر دونوں ممالک کے درمیان سرحدیں انتہائی کٹھن رستوں اور بلند پہاڑوں پر مشتمل ہیں، دونوں ممالک کے لیے ان راستوں کو استعمال کرکے جنگ لڑنا خاصا مشکل ہے، مگر دونوں ممالک سمندری راستہ اختیار کرکے ایک دوسرے کو کافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
بھارت کے ایئرکرافٹ کیریئر بنانے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ چین اپنی نیوی کو ایئرکرافٹ کیریئر سے لیس کر رہا ہے اور بھارت یہ سمجھتا ہے کہ اگر چین کی چودھراہٹ بحر ہند میں قائم ہوگئی تو اس کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، لہذا چین کو نیچا دکھانے کے لیے بھارت ائیرکرافٹ کیریئرز بنا رہا ہے۔
پاکستان کے ایئرکرافٹ کیئریر نہ بنانے کی دوسری بڑی وجہ پاکستان کا دفاعی بجٹ اور پاکستان نیوی کے پاس لڑاکا طیاروں کا نہ ہونا ہے، اور جو لڑاکا طیارے پاک نیوی کو سپورٹ کرتے ہیں یعنی معراج 5 ، یہ لڑاکا طیارے ائیرکرافٹ کیریئر سے اڑان نہیں بھر سکتے، کیونکہ ان طیاروں کو ٹیک آف کرنے کے لیے لمبے رن وے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان کے ایئرکرافٹ کیئریر نہ بنانے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ ائیر کرافٹ کیریئر کئی لڑاکا طیاروں سے لیس ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین اور انتہائی جدید حفاظتی نظام سے بھی لیس ہوتا ہے، جیسے کے ایئرکرافٹ کیریئر کو خود کی حفاظت کے لیے جدید ترین ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم، جدید اور لمبے فاصلے تک مار کرنے والے اینٹی شپ میزائلوں کے علاوہ آبدوزوں کے حملے سے بچنے کے لئے جدید نظام کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
اور اگر دشمن ائیرکرافٹ کیرئیر کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جائے تو بھاری نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے، کیونکہ صرف ائیر کرافٹ کیریئر ہی نہیں بلکہ اس میں موجود کئی درجن لڑاکا طیارے، مہنگے اور جدید ترین میزائل بھی تباہ ہو جاتے ہیں، یہ ایک انتہائی مہنگا اور رسک لینے والا پروجیکٹ ہے،اور فلحال بھارت سے لڑنے کے لیے پاکستان نیوی کو اس کی ضرورت نہیں۔
اس وقت پاکستان کو جدید ترین اور لمبے فاصلے تک مار کرنے والے ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم کی اشد ضرورت ہے، اس کے ساتھ پاک فضائیہ اور پاک نیوی کو “جے ایف سترہ بلاک تھری” طیاروں سے لیس کرنے کی بھی ضرورت ہے، پاکستان کو جلد سے جلد ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ پروگرام پر بھی کام شروع کرنا ہوگا۔
اس کے علاوہ پاکستان کو مغرب میں موجود دشمنوں کے لئے بین البر اعظمی میزائلوں کی تیاری پر توجہ دینا ہوگی،یہ وہ چند اور بنیادی دفاعی ضروریات ہیں جو کہ ائیر کرافٹ کیریئر سے کہیں زیادہ ضروری ہیں، ان ضروریات کو پورا کرنے کے بعد اگر ضرورت پڑی تو پھر پاکستان اپنی نیوی کو ائیر کرافٹ کیریئر سے لیس کر سکتا ہے، لیکن پھر بھی پاکستان کو بھارت سے لڑنے کے لیے اس کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اس کے علاوہ میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ دشمن کے ایئرکرافٹ کیریئر سے پاکستانی کے کسی بھی شہری کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس وقت پاکستان کے پاس دشمن کے جدید سے جدید ائیر کرافٹ کیریئرز کو بھی تباہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے، دشمن کے ایئرکرافٹ کیریئرز کو ٹھکانے لگانے کے لیے پاکستان کے پاس کئی طرح کے میزائل موجود ہیں، جن میں سے چند سرفہرست ہیں۔ “CM-400Akg” میزائل جسے خاص طور پر امریکی ایئرکرافٹ کیئریرز کے دفاعی و حفاظتی نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔
اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بھارتی ایئرکرافٹ کیریئرز کتنے محفوظ ہو سکتے ہیں، دوسرا میزائل وہ ہے جسکا چند مہینے پہلے پاک نیوی نے تجربہ کیا تھا، مگر اس میزائل کی تفصیلات کو خفیہ رکھا گیا ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ اس کی معلومات خفیہ رکھنے کی وجہ دشمن کو وقت آنے پر زبردست سرپرائز دینا ہے، تیسرا اور جدید ترین میزائل جو کہ بھارتی ائیر کرافٹ کیریئرز کی یقینی موت ہے، وہ ہے “Babur 2” جو کہ ناصرف لمبے فاصلے تک مار کر سکتا ہے بلکہ سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیار سے بھی لیس ہے۔
اسی طرح کے کئی اینٹی شپ میزائل پاک نیوی کے پاس موجود ہیں جنہیں دشمن کا دفاعی نظام روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا،ان میزائلوں کے بارے میں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ دشمن کے ایئرکرافٹ کیئریر کو تباہ کرنے کے لئے پاکستان نیوی کے پاس بھی ایئرکرافٹ کیریئر موجود ہوں، ان میزائلوں کو استعمال کرکے پاکستان نیوی چند منٹ میں دشمن کے اربوں ڈالر مالیت کے لڑاکا طیارے اور ایئرکرافٹ کیئریر تباہ کر سکتی ہے۔